راولپنڈی (خلیج نیوز)بانی پی ٹی آئی کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا ہے کہ پابندی نیب پراسیکیوٹر پر نہیں صرف ہمارے اوپر پابندی ہے، اڈیالہ جیل میں اوپن ٹرائل کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔نعیم پنجوتھا نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ کون ہے جو جیل کے حوالے سے فیصلے کرتا ہے اس کا کیا اختیار ہے۔نعیم پنجوتھا نے کہا کہ گزشتہ روز جلسے کے حوالے سے کور کمیٹی کا اجلاس 2 گھنٹے تک جاری رہا، جلسے کی آئندہ تاریخ کے حوالے سے کور کمیٹی فیصلہ کرے گی، آئندہ جلسیکا فیصلہ ہم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر رکاوٹیں ڈالی گئی اس کو عبور کریں گے، جلسے کے حوالے سے تمام دباؤ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی برداشت کرے گی، 8 ستمبر کے جلسے کا این او سی دے دیا گیا ہے، شیڈول ہم جاری کریں گے۔نعیم پنجوتھا نے کہا کہ جلسے کا جو شیڈول آئے گا اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، جلسہ اس وجہ سے منسوخ کیا کیونکہ یہ دوبارہ 9 مئی کرنا چاہتے تھے، جلسہ کرنا ہمارا آئینی حق ہے، ہمیں آئینی حق سے محروم کیا گیا تو عوام نکلیں گے۔
Tag Archives: اوپن ٹرائل
جنرل (ر) فیض حمید کا اوپن ٹرائل کیا جائے، عمران خان
اسلام آباد (خلیج نیوز)سابق وزیر اعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا اوپن ٹرائل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اوپن ٹرائل سے ملک کا فائدہ ہوگا اور پاکستان ترقی کرے گا، اوپن ٹرائل سے رجیم چینج اور 9 مئی کی سازش بے نقاب ہو جائے گی۔اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جانے والے ہیں، اب جنرل فیض کا ڈرامہ رچا دیا گیا ہے، میں مطالبہ کرتا ہوں جنرل فیض کا اوپن ٹرائل کیا جائے اور اس ٹرائل میں میڈیا کو عدالت جانے اورکوریج کی اجازت دی جائے گی، اوپن ٹرائل سے ملک کا فائدہ ہوگا اور پاکستان ترقی کرے گا، اوپن ٹرائل سے رجیم چینج اور 9 مئی کی سازش بے نقاب ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ میں نے بھی اگر بغاوت کی ہے تو میرا بھی اوپن ٹرائل کریں، سوال اٹھایا کہ یہ کون سی جمہوریت میں ہوگا کہ سابق وزیراعظم کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیا جائے؟
انہوں نے بتایا کہ اڈیالہ جیل کے ساقب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اکرم کو اٹھا لیا گیا، اس کی بیوی انصاف مانگ رہی ہے اور یہاں کوئی انصاف نہیں مل رہا، یہ سب کچھ کر کے صرف اور صرف چیف جسٹس کو تحفظ دیا جا رہا ہے، یہ سب اتنی تیزی سے اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ میرے خلاف تمام مقدمات ختم ہو رہے ہیں، نیب تفتیشی نے بیان دیا کہ ملک ریاض کا پیسہ چوری کا نہیں تھا، اس کے بعد 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس ختم ہو چکا ہے۔عمران خان نے کہا کہ یہی بات ہم نے کابینہ میں ڈسکس کی تھی کہ جب یہ پیسہ چوری کا نہیں تو اسے پاکستان لایا جائے، نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ نے ملک ریاض کی رقم مشکوک ٹرانزیکشن پر فریز کی تھی، رقم اس لیے فریز کی گئی کہ حسن نواز کی 9 ارب مالیت کی پراپرٹی 18 ارب روپے میں خریدی گئی، ہمیں ملک ریاض نے کہا تھا کہ این سی اے کے ساتھ ڈیل کو پبلک نہ کیا جائے اسی لیے ہم نے اس ڈیل کو خفیہ رکھا، ملک ریاض اور این سی اے کی ڈیل کو ایف آئی اے اور نیب کھول سکتے تھے، برطانیہ سے جو رقم پاکستان آئی اس سے اب تک یہ 20 ارب ڈالر کما چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ نئے توشہ خانہ کیس میں بھی انعام شاہ اور اپریزر کو وعدہ معاف گوا رکھا گیا ہے۔
اس پر صحافی نے سوال کیا کہ جنرل (ر) فیض حمید پر الزام ہے کہ انہوں نے 9 مئی کی سازش کا منصوبہ بنایا، آرمی کی تنصیبات پر حملوں کے ٹارگٹ سیٹ کیے جس پر آپ نے عمل درامد کروایا، عمران خان نے جواب دیا کہ جس نے میرے اغوا کا حکم دیا تھا اسی نے 9 مئی کی سازش تیار کی تھی اور اسی نے 9 مئی واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج چوری کی ہے۔صحافی نے مزید دریافت کیا کہ آپ کی گرفتاری کا حکم کس نے دیا تھا؟ عمران خان نے بتاہا کہ جو رینجرز کنٹرول کرتا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ رینجرز کو کون کنٹرول کرتا ہے؟ صحافی نے جواب دیا کہ رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے، اس پر عمران خان نے کہا کہ میں وزیراعظم رہا، مجھے ایک دفعہ رینجرز کی ضرورت پڑی، مجھے پتا ہے کہ رینجرز کو کون کنٹرول کرتا ہے، مجھے پتا ہے 9 مئی کو میرے اغوا کا حکم کس نے دیا تھا۔ایک سوال جواب پر عمران خان نے کہا کہ میرے ٹرائل کو اوپن کیا جائے، کس نے حملہ کیا، کس نے سازش تیار کی سب کچھ سامنے آجائے گا، 9 مئی نیشنل سیکیورٹی کا نہیں لوکل معاملہ ہے، یہ ملٹری کا اندرونی معاملہ نہیں یہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ اور سابق وزیراعظم کے اغوا کا معاملہ ہے۔صحافی نے دریافت کیا کہ آپ نے ملک ریاض کے کہنے پر مان لیا کہ یہ چوری یا منی لانڈرنگ کا پیسہ نہیں، آپ نے کابینہ سے منظوری لینے سے قبل یہ تحقیقات کیوں نہیں کرائی کہ یہ پیسہ پاکستان سے باہر کس بینکنگ چینل کے ذریعے گیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ملک ریاض نے بتایا تھا کہ یہ چوری یا منی لانڈرنگ کا پیسہ نہیں، پھر ہم نے کیا تحقیقات کرنی تھیں، صحافی نے مزید پوچھا کہ آپ نے صرف ملک ریاض کے کہنے پر یقین کر لیا اور اس کو تحفظ دیا؟ عمران خان نے بتایا کہ ملک ریاض نے مجھے نہیں کہا تھا کہ یہ چوری یا منی لانڈرنگ کا پیسہ نہیں ہے۔
صحافی نے کہا کہ ملک ریاض نے آپ کے مشیر شہزاد اکبر کے ذریعے آپ کو پیغام بھجوایا تھا؟ عمران خان نے جواب دیا کہ جی بالکل، مجھے شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ ملک ریاض نے بتایا ہے کہ یہ پیسہ چوری یا منی لانڈرنگ کا نہیں ہم، ملک ریاض کے بیان کے بعد ہم کیا تحقیقات کرتے، ہمیں اس کی تحقیقات کے لیے برطانیہ جانا پڑتا، سول عدالت میں کیس کرتے جس کا فیصلہ آنے میں 5 سال لگ جاتے، ملک ریاض اور این سی اے کے درمیان جو ڈیل تھی اسے خفیہ رکھنا مجبوری تھی لیکن نیب اور ایف آئی اے اس کو اوپن کر سکتے ہیں، اس ڈیل کو خفیہ رکھنا ساری کابینہ کا متفقہ فیصلہ تھا۔صحافی نے سوال کیا کہ بشریٰ بی بی کو گزشتہ روز 12 مقدمات سے ڈسچارج کیا گیا اس کے باوجود آپ عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں، عمران خان نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے علاوہ کسی جج پر انگلی نہیں اٹھائی۔صحافی نے دریافت کیا کہ یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ آپ جیل کے باہر اور اب جیل کے اندر سے بھی فیض حمید سے رابطے میں تھے؟
اس پر بانی پی ٹی آئی نے بتایا کہ میرا فیض حمید سے اس وقت تک رابطہ رہا جب تک وہ ڈی جی آئی ایس آئی اور میں وزیراعظم پاکستان تھا، جیسے ہی فیض حمید ریٹائر ہوئے، یقین مانیں میرا نہ ان سے کوئی رابطہ رہا نہ ہی کوئی تعلق، آرمی سے اگر کوئی جنرل ریٹائر ہو جائے تو وہ فارغ ہو جاتا ہے، اس کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی، جب کوئی آرمی جنرل ریٹائرڈ ہو جاتا ہے تو وہ ہیرو سے زیرو ہو جاتا ہے، یہ احمق لوگ ہیں انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتے تھے۔صحافی نے سوال کیا کہ جنرل فیض کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ آپ وفاقی حکومت سے کر رہے ہیں یا آرمی چیف سے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ میں جنرل فیض کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ آرمی چیف سے کر رہا ہوں۔اس پر صحافی نے دریافتا کیا کہ جنرل(ر) فیض کوئی معمولی جرنل نہیں تھے، ان کے پاس بہت سارے راز ہیں وہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی تھے، عمران خان نے جواب دیا کہ میں اسی لیے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کر رہا ہوں تاکہ سارے راز اور سازش بے نقاب ہو جائے۔انہوںنے کہاکہ دنیا میں پاکستان کا کیا امیج رہ جائے گا کہ ایک سابق وزیراعظم کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے۔