پاکستان کی 84 سرکاری کمپنیوں نے قومی خزانے کو تین سال میں ایک ہزار ارب کا نقصان پہنچایا، عالمی بینک



کراچی (خلیج نیوز) عالمی بینک نے پاکستان کے سرکاری ملکیتی اداروں کی ہوشربا رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا کہ تین سال میں 84 اداروں نے قومی خزانے کو ایک ہزار ارب سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ذرائع کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر 212 سرکاری ملکیتی ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں سے 84 اداروں نے قومی خزانے کو تین سال میں ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب)سے زائد کا نقصان پہنچایا ہے۔ عالمی بینک نے تجویز کیا ہے کہ سرکاری ملکیتی اداروں کے سالانہ خسارے 350 ارب روپے کے لگ بھگ ہیں اور یہ خسارے کم کرنے کے لیے سرکاری اداروں میں خود مختار اور ماہرین کو شامل کیا جائے۔

سرکاری ملکیتی اداروں کے مسلسل خساروں اور نجکاری کے حوالے سے عالمی بینک کی رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایس او ایز پالیسی کی بجائے ایس او ایز ٹریاج پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ آئی ایم ایف کی مشاورت سے 2021 میں ایس او ایز ٹریاج لاگو کیا گیا۔ ٹریاج کے تحت 84 کمرشل سرکاری ملکیتی اداروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ان 84 اداروں نے قومی خزانے کو تین سال میں ایک ٹریلین کا نقصان پہنچایا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت مجموعی طور پر 212 سرکاری ملکیتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ایس او ایز ٹریاج کے بعد فروری 2023 کو ایس او ایز ایکٹ کا نفاذ کیا گیا۔

ایس او ایز ایکٹ کے تحت اپریل 2023 میں ایس او ایز پالیسی لائی گئی۔ ٹریاج کا مقصد 84 کمرشل اداروں کے منافع اور نقصانات کا اندازہ لگانا تھا اور یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کن اداروں کو ملکیت میں رکھنا ہے اور کن کو نہیں۔ ایس او ایز پورٹ فولیو 2016 سے مسلسل خسارے کا شکار ہے۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت سرکاری ملکیتی اداروں کو مالی مدد فراہم کرتی ہے، ایس او ایز کو حکومتی امداد فوری محدود کرنے پر عمل کیا جائے، سرکاری ملکیتی اداروں کے مالی اخراجات کو کم کیا جائے۔

عالمی بینک نے رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ اقتصادی کارکردگی کے لیے ایس او ایز میں حکومتی عمل دخل کم کریں، ہائی پروفائل ایس او ایز کی منتخب تقسیم کے ساتھ آگے بڑھیں۔اسی رپورٹ کے مطابق ایس او ایز کے گورننس اور مالی مسائل پر توجہ دی جائے، ایس او ای ایکٹ سے مطابقت رکھنے والی پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہے۔ کارپوریٹ گورننس اور مالیاتی ڈسپلن کی پالیسیاں نافذ کی جائیں۔بورڈز کا مسابقتی انتخاب، پرفارمنس ایگریمنٹس کا قیام بھی ضروری ہے جب کہ سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ کے ذریعے باقاعدہ مانیٹرنگ بھی ہونی چاہیے۔


مزید خبریں

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Khaleej Islamabad. All Rights Reserved | Privacy Policy | DMCA